جواب:
آپ نے جو بات پوچھی ہے وہ ایک غریب آدمی کی مجبوری سے گو غلط فائدہ اٹھانا بھی ہے، مگر دوسری طرف گاہک کی ایک حد تک ضرورت پوری ہوتی ہے۔ چونکہ منافع کی منصفانہ حد شریعت میں مقرر نہیں، لہٰذا یہ صورت بھی اسی ضمن میں آتی ہے۔ اصولاً سودا صحیح ہے۔ البتہ دوکاندار گاہک سے حسن سلوک اور رحمدلی و ہمدردی کے تحت کم سے کم نفع لے تو اسلامی سیرت سے قریب تر ہے۔ بہرحال صورت مسؤلہ میں سودا شرعاً جائز ہے کہ حرمت کی دلیل نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔