جواب:
دین میں جبر نہیں ہے، والدین کو الیسا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اپنی بیٹی کی رضا اور خوشی کو مدنظر رکھنا چاہیے، جہاں لڑکی خوش ہے اور وہ چاہتی ہے اس کی خوشی کے مطابق والدین کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ البتہ والدین اچھی طرح چھان بین کر لیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر لڑکا اچھا ہو، صحیح العقیدہ ہو، اس کا خاندان بھی ٹھیک ہو تو والدین کو اپنی بیٹی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس کی خوشی کو مقدم رکھنا چھاہیے۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہو، اس کا اخلاق اچھا نہ ہو، خاندان اچھا نہ ہو تو لڑکی کو چاہیے کہ اپنے والدین کی بات مانتے ہوئے کوئی اچھا اور معقول رشتہ تلاش کر کے شادی کرے۔ کیونکہ والدین ہمیشہ اپنی اولاد کی بہتری چاہتے ہیں۔
کسی بھی صورت میں اگر لڑکی نکاح کے لیے راضی ہو جاتی ہے اور وہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھ لیتی ہے تو نکاح ہو جاتا ہے۔ ایسے موقع پر لڑکی کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ والدین جو فیصلہ کر رہے ہیں کیا وہ اس کے لیے درست ہے کہ نہیں؟ دل کی کیفیت کو کوئی نہیں جانتا کہ وہ دل سے انکار کر رہی ہے یا قبول۔ اگر ظاہراً سب کے سامنے نکاح قبول کرتی ہے تو نکاح ہو جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔