دوسروں کا مال کھانا کیسا ہے؟


سوال نمبر:1562
میں‌ نے ایک کتاب خریدی جس کی قیمت دکاندار نے اصل سے کم وصول کی، اور مجھے اس وقت پتہ تھا کہ یہ حساب غلط کر رہا ہے۔ اس وقت اس نے مجھ سے جتنے پیسے مانگے میں نے ادا کر دئیے۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ دوسروں کا مال نہیں‌ کھانا چاہیے۔ اب میں اس کو پیسے لوٹانا چاہتا ہوں مگر اتنے سال گزر گئے ہیں‌ کہ دکان کا صحیح طرح سے یاد نہیں کہ کونسی تھی، مجھے اس کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں دیجئے۔

  • سائل: حسیب اللہ خان شیرانیمقام: ہندوستان
  • تاریخ اشاعت: 02 اپریل 2012ء

زمرہ: غصب کے احکام

جواب:

دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًاo

(النساء، 4 : 29)

اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہےo

آپ تھوڑا غور و فکر کریں، سوچیں، کسی سے پوچھیں، اگر اس وقت آپ کے ساتھ کوئی دوست، بھائی ہو تو اس سے پوچھیں، اگر یاد آ جائے تو اس کو ادا کر دیں، نہیں تو اتنے پیسے صدقہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں، ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ ضرور معاف فرما دے گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ خطاء، خلطی انسان ہی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری

✍️ مفتی تعارف

یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔