جواب:
آپ کے سوال کے مطابق اگر شوہر آپ کو پورا خرچ نہیں دیتا یا اتنے پیسے دیتا ہے جس سے آپ کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں تو ایسی صورت میں آپ ایسا کر سکتی ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آّپ کی نیت غلط نہ ہو۔ ضرورت سے زیادہ پیسہ نہ نکالیں۔ فضول خرچی نہ کریں۔ اگر واقعی ضرورت کے لیے آپ ایسا کرتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ آپ کا حق ہے یہی سوال حضرت ہندہ زوجہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ان ابا سفيان شعيع لا يعطينی من النفقة ما يکفينی ويکفی بنی الا ما اخذت من ماله بغير علمه فهل علی فی ذلک من جناح؟ فقال رسول لله صلی الله عليه وآله وسلم خذی من ماله بالمعروف وما يکفيک ويکفی بنيک.
(صحيح مسلم، 1714، کتاب: القضية، باب: قضية هند الفقه الحنفی فی ثوبه الجديد، ج:2 ص: 124)
انہوں نے کہا کہ ابو سفیان کنجوس آدمی ہے مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے جس سے میری ضروریات اور میرے بیٹے کی ضروریات پوری ہوں تو میں ان کے مال سے بغیر بتائے مال نکال لیتی ہوں تو کیا ایسا کرنے سے مجھ پر کوئی گناہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا اس کے مال سے اتنا نکال کیا کرو جتنا تمہارے اور تمہارے بیٹے کے لیے کافی ہو۔
لہذا آپ اپنی ضرورت کے مطابق نکال سکتی ہیں اور اس مال سے صلہ رحمی بھی کر سکتی ہیں۔ دوسروں کی مدد بھی کر سکتی ہیں اس سے آپ کو اجرو ثواب ملے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔