جواب:
1۔ مستحب یہی ہے کہ میت جہاں وفات پائے اسی جگہ اس کو دفن کیا جائے۔ لیکن دفن سے پہلے ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ جسم کے خراب ہونے اور بدبودار ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ لیکن دفن کرنے کے بعد اسے نکالنا صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔
اذا کانت الارض التی دفن فيها مغصوبة أو أخذت بعد دفنه بشفعة
(الهداية)
جب زمین غصب شدہ ہے یا دفن کے بعد اسے کسی نے حق شفعہ کی بناء پر لے لیا۔
ان دو صورتوں میں میت کو قبر سے نکالنا جائز ہے ورنہ نہیں۔
2۔ قرآن و حدیث میں امانتاً دفن کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ اس لیے امانتاً دفن کرنا جائز نہیں۔ معاشرے کے اندر جہالت اور لا علمی کی وجہ سے جہاں بے شمار رسومات رواج پا گئی ہیں ان میں سے ایک امانتاً دفن کرنے کی رسم بھی ہے، جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک دفعہ دفن کرنے کے بعد مذکورہ بالا دو صورتوں میں میت کو قبر سے نکالنا جائز ہے، اگر ان میں سے کوئی بھی صورت نہ پائی جائے تو میت کو قبر سے نکالنا جائز نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔