جواب:
فقہائے کرام فرماتے ہیں :
الکنايات لا يقع الطلاق الا بالنية او بدلالة الحال.
"کنایات سے صرف نیت ہو یا دلالت حال تو طلاق واقع ہو گی"۔
1. برهان الدين علی المرغينانی، الهدايه شرح البدابة، 1 : 241، المکتبة الاسلام.
2. الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 1 : 374، دار الفکر، سن اشاعت 1411ه
معلوم ہوا کنایات الفاظ سے دو صورتوں میں طلاق واقع ہوتی ہے جب نیت ہو اور ماحول ایسا ہو کہ جب یہ الفاظ بولے ہیں اس وقت ان سے مراد طلاق کے معنی سمجھ میں آئیں۔
لہذا ان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہو گئی ہے ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ لڑکی آزاد ہے عدت کے بعد جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ دوبارہ پہلے خاوند کے ساتھ عدت میں یا عدت کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن یاد رہے پہلے خاوند سے نکاح کرنے کی صورت میں اس کے پاس زندگی میں صرف دو دفعہ طلاق دینے کا حق باقی رہ جائے گا جب بھی دو دفعہ طلاق دی تو یہ طلاق مغلظہ ہو جائے گی پھر رجوع کا حق باقی نہیں رہے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔