جواب:
پہلی صورت یہ بنتی ہے کہ اگر توکوئی شخص سوچ سمجھ کر نارمل حالت میں طلاق دیتا ہے تو جتنی طلاقیں دے گا واقع ہو جائیں گی۔ اکھٹی تین ایک مجلس میں دے دے یا مختلف اوقات میں، جس کی مزید وضاحت کے لیے درج ذیل لنک میں کلک کریں۔
کیا تین طلا قیں لکھ کر دینے کے بعد بھی قرآن و حدیث میں رجوع کی گنجائش ہے؟
دوسری صورت یہ بنتی ہے کہ لڑائی جھگڑے کے دوران طلاق دی جائے، طلاق دینے والا اتنہائی غصہ کی حالت میں طلاق دے دے ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔
کیا انتہائی غصہ میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
تیسری صورت یہ ہے کہ اگر دھمکی لگانے والا جان سے مار دینے پر قادر ہو تو ایسی صورت میں طلاق تحریری ہو یا زبانی واقع نہیں ہوتی۔ کیونکہ طلاق دینے والا دینا نہیں چاہتا لیکن اس کے سر پر پستول رکھ کر طلاق کے الفاظ بار بار بلوائے جائیں تو طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ وہ اپنی جان بچانے کی خاطر الفاظ بول رہا ہے۔ لہذا جبرا طلاق واقع نہیں ہوتی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔