جواب:
پہلی بات یہ ہے کہ ورثاء کے لیے وصیت نہیں کی جا سکتی، وصیت صرف غیر وارث کے لیے جائز ہوتی ہے۔ اگر کوئی وارث کے لیے وصیت کر بھی دے تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ لہذا میت کی تجہیز وتکفین، قرض کی ادائیگی اور غیر وارث کے لیے اگر وصیت کی گئی ہو تو ایک تہائی (1/3) سے پورا کرنے کے بعد باقی مال کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ کو دینے کے بعد بقیہ جائیداد کو بیٹے بیٹیوں میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ بیوہ کا اپنے خاوند کے مال میں آٹھواں (1/8) حصہ ہے اولاد ہونے کی صورت میں، اگر اولاد نہیں ہے تو چوتھا (1/4) حصہ ہے، جس کی وہ مالک بنتی ہے، اس کے علاوہ مال اس کی ملکیت نہیں ہوتا ہے، اس لیے اس کی مرضی نہیں چلے گی۔ قرآن وحدیث کے مطابق باقی ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔