جواب:
میاں بیوی کے تعلقات اس طرح کے ہونے تو نہیں چاہیں کہ وہ ایک دوسرے سے مشورہ کیے بغیر کوئی بھی کام کریں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی ایسا شوہر ہو کہ وہ اپنی بیوی کو صدقہ خیرات کرنے سے بھی منع کرے تو ایسی صورت میں بیوی بغیر اس کی اجازت لیے صدقہ خیرات کر سکتی ہے، لیکن مناسب حد تک کرے۔ اگر کوئی زیادہ رقم صدقہ خیرات کرنا چاہے یا اپنے ماں باپ رشتہ داروں میں سے کسی حقدار پر خرچ کرنا چاہے تو خاوند سے مشورہ کیے بغیر نہ کرے تاکہ اگر وہ حساب بھی لے تو آپ کو مشکلات پیدا نہ ہوں۔
جو عورت ملازمت کر کے کماتی ہے وہ رقم تو اسی کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کو اپنا مال کسی کو دینے کے لیے خاوند سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لیکن وہ اس کو مناسب جگہ اور مناسب حد تک استعمال کرے، درمیانہ راستہ اختیار کرے حد سے نہ بڑھے۔ لہذا مناسب تو یہی ہے کہ بیوی مشورے سے ہی صدقہ خیرات کرے، اگر خاوند کنجوس ہو تو بغیر اجازت بھی صدقہ خیرات یا ضرورت مند رشتہ داروں کی خدمت کی جا سکتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔