جواب:
پندرہ شعبان المعظم کو روزہ رکھنا مستحب ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
عن علی ابن أبی طالب قال قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم اذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلها وصوموا نهارها فان الله ینزل فیها لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول : الا من مستغفرلی فاغفرله؟ الا مسترزق فارزقه؟ الا مبتلی فاعا فیه الا کذا؟ الا کذا؟ حتی یطلع الفجر.
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو رات کو قیام کرو۔ دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالی اس رات میں سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کون مجھ سے رزق طلب کرتا ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کون مبتلائے مصیبت ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ اسی طرح صبح تک ارشاد ہوتا رہتا ہے۔
ابن ماجہ، السنن، 444:1، رقم : 1388، دار الفکر بیروت
لہذا جو مسلمان پندرہ شعبان المعظم کو روزہ رکھے گا، وہ ثواب حاصل کرے گا اور جو نہیں رکھے گا اسے گناہ نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔