جواب:
اسلامی پردہ میں رہتے ہوئے لڑکے لڑکیاں آفس میں کام کر سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ لڑکے لڑکیوں کے لیے الگ الگ ادارے ہوں۔ لیکن جہاں ایسا بندوبست نہیں ہے، مناسب حد تک ایک دوسرے سے مشورہ کرنا یا گروپ کی شکل میں میٹنگ کرنی چاہیے تاکہ برائی کے کم سے کم مواقع پیدا ہوں۔ اکیلے اکیلے گپ شپ نہ لگائیں تاکہ اللہ تعالی کی حدوں سے آگے بڑھنے کی نوبت نہ آئے۔ اس طرح فیس بک یا دیگر جتنے بھی جدید ذرائع ابلاغ ہیں ان پر لڑکے لڑکیوں کو غلط تعلقات قائم نہیں کرنے چاہیں۔
آپ کے شوہر کو چاہیے کہ وہ دوسری لڑکیوں کی بجائے آپ سے پیار محبت کریں، آپ سے ہی دل لگائیں۔ ڈیوٹی ٹائم ختم ہونے پر سیدھے گھر آئیں۔ کھانا آپ کے ساتھ کھائیں اور دیگر حقوق بھی پورے کریں، صرف خرچ دینا ہی فرض نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سے حقوق پورے کرنا فرض ہے۔ بیوی سے پیار محبت کرنا بھی فرض ہے۔ اب اوروں کی طرف نظر نہ رکھیں۔ جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی سزا میں فرق ہے، البتہ لڑکے اور لڑکی کی سزا برابر ہی ہے۔ لہذا وہ یہ مت سمجھیں کہ اس کے لیے سزا کم ہے اور آپ کے لیے زیادہ ہے۔ آپ دونوں کو مل جل کر پیار محبت سے رہنا چاہیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔