جواب:
جب انسان کام کاج کرتا ہے کمی بیشی تو رہ ہی جاتی ہے۔ انسان سے غلطی بھی ہو جاتی ہے۔ اس لیے سسر صاحب کو کچھ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ غصے کی بجائے پیار سے بیٹیوں کی طرح آپ کو سمجھانا چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیےآپ ان کو سسر کے بجائے ابو جی کہیں اور وہ آپ کو بیٹی کہیں اور سمجھیں بھی۔ خود ہی دیکھ لینا ساری لڑائیاں ختم ہو جائیں گی۔ آپ کو پریشانی بنے گی نہ ان کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر غصہ آئے گا۔ غلطی تو انسان سے ہو ہی جاتی ہے لیکن اس کی وجہ سے حالات کشیدہ کر دینا اچھی بات نہیں ہے۔ اور آپ کے لیے بھی بہت ہی اچھا ہے اگر وہ آپ کو برا بھلا کہیں تو آپ والد کی جگہ سمجھتے ہوئے ان کی باتوں کا برا نہ منائیں، پھر بھی آپ کی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ اگر مذکورہ بالا میں سے کوئی بھی صورت نہیں بنتی پھر آپ کے خاوند کو چاہیے کہ آپ کو الگ گھر مہیا کریں یا پھر کام کاج والدین سے الگ کر لیں۔ وہ اپنے والدین کی خدمت جاری رکھیں، ان کی خدمت میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ لیکن آپ کو الگ کر دیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے، تاکہ یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے کوئی خطرناک راہ اختیار نہ کر جائیں۔ اللہ تعالی آپ لوگوں پر رحم وکرم فرمائے۔
مزید مطالعہ کے لیے درج ذیل سوالات پر کلک کریں۔
کیا بیوی پر ساس کی خدمت کرنا فرض ہے؟
مسلمان خواتین کا میک اپ کی غرض سے بیوٹی پارلر میں جانا کیسا ہے؟
بناؤ سنگھار کس حد تک اور کس کے لئے جائز ہے؟
عمدًا نفلی روزہ توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔