جواب:
جو صورت حال آپ نے بتائی ہے اگر واقعی اسی طرح ہے تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی جس کا ثبوت قرآن و حدیث اور کتب فقہ کی روشنی میں درج ذیل ہے :
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ.
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔
البقره، 2 : 256
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لا طلاق ولا عتاق فی اغلاق.
’’جبر واکرہ سے نہ طلاق ہوتی ہے نہ مملوک کی آزادی‘‘
رجل اکره بالضرب والحبس علی أن يکتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فکتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق.
’’کسی شخص کو مارپیٹ اور حبس (قید) کے ذریعہ، اپنی بیوی کو تحریری طلاق پر مجبور کیا گیا، کہ فلاں دختر فلاں ابن فلاں کو طلاق اس نے لکھ دیا کہ فلاں عورت فلاں بن فلاں کی بیوی کو طلاق اس کی بیوی کو طلاق نہ ہو گی‘‘
لو أکره علی أن يکتب طلاق امرأته فکتب لا تطلق.
’’اگر کسی کو مجبور کیا گیا کہ طلاق لکھے اور اس نے لکھ دی تو طلاق نہیں ہو گی‘‘
علامہ شامی فرماتے ہیں :
کل کتاب لم يکتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقرّانّه کتابه.
’’ہر تحریر جو خاوندنے نہ اپنے ہاتھ سے لکھی، نہ خود لکھوائی، اس سے طلاق واقع نہ ہوگی جب تک اقرار نہ کرے کہ یہ تحریر اسی کی ہے‘‘
ابن عابدين، ردالمحتار شامي، 3 : 247
لہٰذا آپ کی بیوی کو طلاق واقع نہیں ہوئی، آپ بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔