السلام علیکم مفتی صاحب! میرے ابو ، امی کو وقفے وقفے سے ایک یا دو بار پہلے بھی طلاق دے چکے ہیں۔ اب ایک بار پھر ان کا آپس میں جھگڑا ہوا ہے، تو ابو نے کہا ’’میری طرف سے تمہیں طلاق، طلاق، طلاق‘‘ مگر اب مان نہیں رہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہماری صلح ہو گئی تو طلاق ختم ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ جب تک گھر والوں کے علاوہ کوئی اور شخص گواہ نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی، صرف کفارہ لازم آتا ہے۔
اب انہوں نے کہیں سے ایک فتویٰ بھی لکھوایا ہے جس کے مطابق طلاق واقع نہیں ہوئی۔
براہِ کرم راہنمائی فرما دیں کہ کیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟
جواب:
اگر آپ لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ کے ابو نے طلاقیں دی ہیں تو طلاق واقع ہو گئی ہے اور ان کو الگ الگ کردینا ضروری ہے کیونکہ جب گواہ موجود ہو تو پھر خاوند کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر میاں بیوی میں ختلاف ہو، بیوی کہے کہ طلاق دی ہے اور خاوند کہے کہ نہیں دی تو خاوند کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔
مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔