جواب:
آپ نے اپنے سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ مذکورہ بزرگ نے اپنی بہو سے صرف باتوں کی حد تک کوئی چھیڑخانی کی ہے یا باقاعدہ شہوت کے ساتھ اسے چُھوا ہے۔ اگر اس نے اپنی بہو سے شہوت کے ساتھ قربت اختیار کی اور بوس و کنار وغیرہ کیا ہے، تو پھر اس کی بہو اس کے بیٹے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی ہے۔ لیکن اگر اس نے صرف باتیں کی ہیں اور عملی طور پر ایسی کوئی حرکت نہیں کی، تو پھر ضروری ہے کہ بہو کو آئندہ اس شخص کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔
والدین کی خدمت کرنا اور ان کا خرچ اُٹھانا بے شک اولاد کی ذمہ داری ہے، اور اولاد کو یہ ذمہ داری ہر حال میں ادا کرنا ہوتی ہے۔ ہماری دانست میں اگر مذکور شخص کی شادی کر دی جائے، تو یہی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔