جواب:
زرِ بیعانہ اس رقم کو کہا جاتا ہے جو کسی طے پانے والے سودے کو پابند ٹھہرانے یا طے شُدہ معاملہ فروخت کی توثیق کے لیے ادا کی جاۓ یا طے شدہ زرِ ثمن (قیمت) کا کچھ حصّہ جو تکمیلِ معاملہ سے پہلے بطور پیشگی دیا جائے۔ شریعتِ مطاہرہ نے اسے جائز بتایا ہے اور اس کے احکام درج ذیل ہیں:
اگر خرید و فروخت مکمل نہیں ہوئی، لیکن مُشْتَرِی (خریدار) اور بائِع (فروخت کنندہ) نے آپس میں وعدہ کرلیا کہ فلاں تاریخ کو ہم سودا کرلیں گے اور اس کے لیے ایڈوانس کچھ رقم خریدار نے بائع کو دے دی، مقررہ تاریخ پر اگر خریدار نے بائع سے سودا نہیں کیا تو بائع کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیعانہ کی رقم ضبط کرلے۔ اسی طرح اگر بائع نے سودا دینے سے انکار کردیا تو مشتری کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بیعانہ کی ادا شدہ رقم سے زیادہ رقم بائع سے وصول کرے۔ بغیر کسی عذر کے وعدہ خلافی کرنا اور مقررہ تاریخ پر سودا نہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس پر وعدہ خلافی کرنے کا گناہ ہوگا اور فریقین کو قانونی چارہ جوئی کا بھی حق حاصل ہے۔ مذکورہ صورت میں بیعانہ کی رقم بائع کے پاس امانت ہے اور اس پر امانت کے احکام جاری ہوں گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔