جواب:
اگر دو گواہوں کی موجودگی میں خاوند نے اپنا مکان بیوی کو ہبہ کیا اور اس کے کاغذات بھی اس کے قبضے میں دے دیے تو از روئےشرعِ متین وہ ہبہ کامل اور درست قرار پایا، کیونکہ ہبہ قبضہ سے مکمل ہوجاتا ہے۔ جیساکہ درمختار برحاشیۂ ردالمحتار میں ہے:
(وتتم ) الهبة (بالقبض) الکامل
اور ہبہ کامل قبضہ سے مکمل ہوجاتا ہے
شامی، ردالمختار، 4: 569
اب مکان زید کی بیوی کی ملکیت ہے۔ اس لیے مذکورہ ہبہ کردہ مکان کو فروخت کرنے اور اس میں حسبِ منشا تصرف کرنے کا اسے شرعاً اختیار ہے۔ اس مکان کو بطور وراثت زید کے ورثاء میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔