جواب:
حدیثِ مبارکہ میں آقا علیہ الصلاۃ و السلام کا ارشاد ہے:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع‘‘
درج بالا فرمانِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم ہوا کہ جب طلاق صریح الفاظ کے ساتھ دی جائے تو وہ بلا ارادہ بھی واقع ہوجاتی ہے۔ ارادے کا اعتبار اس وقت کیا جاتا ہے جب طلاق صریح الفاظ کی بجائے الفاظِ کنایہ سے دی جائے۔
بصورتِ مسئلہ اگر آپ نے بلاجبر و اکرہ، بقائمی ہوش و حواس اپنی بیوی کو کہا کہ ’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘ تو ایک طلاق واقع ہو چکی ہے، خواہ آپ کا ارادہ تھا یا نہیں۔ اب آپ اگر رجوع کرنا چاہتے ہیں تو عدت کے اندر رجوع کرلیں یا پھر عدت کے بعد تجدید نکاح کر سکتے ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد آپ کا نکاح ختم ہوجائے گا، اور اگر آپ تجدید نکاح نہیں کرتے تو آپ کی بیوی آزاد ہے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔