جواب:
اسلام نے عورت کو زندگی کے تمام مراحل پر مالی، معاشرتی اور تمدنی تحفظ عطا کیا ہے۔ اسے معاشرے میں مرد کی طرح ، بلکہ بعض حیثیتوں سے مرد سے بڑھ کر عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ پیدائش سے وفات تک عورت کی تمام معاشی ضروریات اس کے مرد رشتے داروں کے ذمہ ہیں۔ بیٹی کی صورت میں باپ اس کی کفالت کرتا ہے۔ باپ زندہ نہ ہو تو یہ فریضہ بھائی کے ذمہ ہے۔ شادی کے بعد اس کی تمام مالی ضروریات پورا کرنا، اسے کھانا، رہائش اور دیگر ضروریاتِ زندگی فراہم کرنا اس کے شوہر کے ذمہ داری ہے۔ شوہر فوت ہو جائے، اور بچے نابالغ ہوں تو بیوہ کے احکام کے تحت عام مسلمانوں پر اس کی کفالت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ بیٹے جوان ہوں تو ماں کی کفالت ان کے ذمہ ہے۔ گویا اسلام نے عورت کی پیدائش سے لیکر اس کی وفات تک کے ہر مرحلے میں اس کی معاشی کفالت اور اس کو تحفظ کی فراہمی والد، شوہر اور بیٹے کی ذمہ داری لگائی ہے۔ معاشی ذمہ داریوں سے آزادی کے باوجود اسلام نے عورت کو وراثت سے محروم نہیں کیا۔ اس کے شوہر کی وفات کے بعد اگر رہائشی مکان وراثت میں تقسیم ہو جاتا ہے تو بیوہ اپنے بچوں کے ساتھ رہے گی اور اس کی کفالت اولاد کا فریضہ ہے۔ اگر وہ کسی دوسری جگہ شادی کر لیتی ہے تو اس کا نان و نفقہ شوہر کے ذمہ داری ہوگی۔ اگر اولاد نہ ہو اور شادی کی عمر بھی نہ ہو تو ورثاء کا اخلاقی فریضہ ہے کہ ایسی عمر رسیدہ بیوہ کو بےگھر نہ کریں، اور مکان تقسیم کرنے کی بجائے اپنا حصہ بھی اسے ہی سونپ دیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔