جواب:
تقسیمِ وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق چار بیٹیوں اور چار بیٹوں میں ایک سو بیس (120) ایکڑ زمین کی تقسیم اس طرح ہونی تھی کہ ہر بیٹے کو بیس (20) اور ہر بیٹی کو دس (10) ایکڑ ملنے تھے۔ ان کے والد نے اپنی زندگی میں ہی ساری زمین بیٹوں کے نام کر کے بیٹیوں کا حق مارا، ان کے ساتھ ظلم کیا اور بیٹوں کی محبت میں آخرت کا بارِ گراں اپنے سر لیا۔ قرآنِ مجید ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے:
وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّاO وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاO
اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے) اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔
الْفَجْر، 89: 19-20
لہذا بیٹے اگر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنی بہنوں کو ان کا حصہ بخوشی دیں، کیونکہ بیٹیاں شرعاً اور قانوناً اس جائیداد میں حصہ دار ہیں اور بذریعہ عدالت اپنا حصہ لینے کا حق رکھتی ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔