جواب:
تقسیمِ وراثت کے شرعی اصولوں کے مطابق نانا کی وراثت میں نواسے کا حصہ مقرر نہیں ہے۔ یہ اس وقت حصہ پاتا ہے جب اس سے قریبی ورثاء موجود نہ ہوں۔ اگر نانا کے ورثاء میں اصحاب الفرائض (باپ، دادا، مادری بھائی، بیوی، ماں، سگی دادی و نانی، بیٹی، پوتی/ پڑپوتی، حقیقی بہن، پدری بہن، مادری بہن) اور عصبات (بیٹا‘ اس کی عدم موجودگی میں پوتا پھر پڑپوتا، باپ‘ اس کی عدم موجودگی میں دادا پھر پڑدادا، بھائی‘ اس کی عدم موجودگی میں بھتیجا، چچا‘ اس کی عدم موجودگی میں چچا کا بیٹا) میں سے کوئی نہ ہو تو ذوی الارحام کی حیثیت سے نواسے اور نواسی کو لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ کی تقسیم سے حصہ ملے گا یعنی دو حصے نواسے کو اور ایک حصہ نواسی کو ملے گا۔
اگر قریبی ورثاء اپنی رضامندی سے نواسے کو کچھ دینا چاہیں تو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔