جواب:
قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے۔ اس جواز کی دلیل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی ہے کہ:
ان أحق ما أخذتم عليه أجرا کتاب الله.
تم جس چیز پر اجرت لینے کے سب سے زیادہ حق دار ہو، وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔
بخاری، الصحيح، 5: 2166، رقم: 5405، بیروت: دار ابن کثیر الیمامۃ
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے:
ان المتقدمين منعوا اخذا الاجره علی الطاعات، وافتی المتاخرون بجواز علی التعليم والامامة. کان مذهب المتاخرين هو المفتی به.
متقدمین علماء نے عبادات پر اجرت لینے کو منع کیا، اور متاخرین علماء نے تعلیم و امامت پر اجرت جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔۔۔ اور حتمی فتویٰ متاخرین کے مذہب پر ہی ہے (یعنی اجرت لینا جائز ہے)۔
(رد المختار، شامی، 4: 417، کراچی)
جس طرح سکول، کالج، اکیڈمی اور مدرسہ میں وقت دینے پر معاوضہ لینا جائز ہے اسی طرح گھروں میں جا کر تعلیمِ قرآن دینے پر اجرت لینا جائز ہے۔ اگر کوئی بلامعاوضہ تعلیم سے تو نہایت قابلِ تحسین ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔