جواب:
مسئلہ مسؤولہ کی دو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں:
سائل صورتحال کے مطابق فیصلہ کر لے کہ دونوں میں سے کونسی صورت بنتی ہے۔ جو بھی صورت بنے اس کا حکم بیان کر دیا گیا ہے۔
سوال کے دوسرے حصے میں آپ نے طلاق دینے والے کے اِس قول کے بارے میں پوچھا کہ ’میں نے تو جھوٹ بولا تھا‘ طلاق نہیں دی تھی‘۔ شریعتِ مطاہرہ کا اصول ہے کہ طلاق خواہ سنجیدگی میں دی جائے یا مذاق میں، جھوٹی ہو یا سچی، فرضی ہو یا حقیقی، طلاق واقع ہو جائے گی۔ حدیثِ مبارکہ میں آقا علیہ الصلاۃ و السلام کا ارشاد ہے:
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُولَ اﷲِ قَالَ ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ النِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں کہ ارادہ کے ساتھ کی جائیں یا مذاق میں کی جائیں (دونوں صورتوں میں) صحیح مراد ہیں: نکاح، طلاق اور رجوع‘‘
اس لیے مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ میں نے جھوٹ بولا تھا‘ طلاق نہیں دی تھی، محض لغو ہے۔ اگر اس نے طلاق دی تھی تو طلاق واقع ہوگئی ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔