جواب:
کسی شے کے بارے میں گہرائی سے جاننا، اُس شے کا علم کہلاتا ہے، اور جاننے والے کو عالم کہتے ہیں۔آئمہ لغت نے علم کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ:
العلمُ اِدراکُ الشئ بحقيقة.
کسی شے کو حقیقت کے ساتھ جان لینا علم کہلاتا ہے۔
علمائے کرام کے نزدیک علم کسی شے کی ماہیت کو جاننے کا نام ہے۔
المعرفة المعلوم علیٰ ما هو به.
کسی شے کو اس کی ماہیت (جس پر وہ قائم ہو) کے ساتھ جاننا علم کہلاتا ہے۔
آئمہ لغت، علمائے کرام، فقہاء اور محدثین نے کم و پیش علم کی یہی تعریف کی ہے جس میں گہرائی سے جاننے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس لیے ’عالمِ دین‘ وہی کہلائے گا جو دینی علوم کا فہم رکھتا ہو۔ قرآنِ مجید نے علماء کے طبقے کے لیے جاننے کے ساتھ ساتھ کردار کا بھی ایک معیار تجویز کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.
بس اﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔
فَاطِر، 35: 28
لہٰذا عالم اس شخص کو کہا جائے گا جو قرآن وحدیث اور علومِ اسلامیہ کو گہرائی سے سمجھتا ہو، اس کا کردار اس کے علم کی گواہی دیتا ہو اور وہ احسن انداز میں ترویج و اشاعتِ دین کا کام کر رہا ہوں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔