بینک میں جمع رقم کے عوض ملنے والے طےشدہ اضافے کا کیا حکم ہے؟


سوال نمبر:4079
میرے والد ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے۔ وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور ان کا بینک میں اکاؤنٹ ہے جس میں ان کا پندرہ لاکھ جمع ہے۔ اس رقم کے بدلے ان کو پندرہ ہزار ماھانہ ملتا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ سود ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ میرا وظیفہ ہے جو میں سرکاری ملازمت کی وجہ سے لے رہا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سود ہے یا نہیں؟

  • سائل: عبدالرؤفمقام: ڈیرہ غازی خان، پنجاب
  • تاریخ اشاعت: 13 جنوری 2017ء

زمرہ: نفع و نقصان شراکتی کھاتہ  |  جدید فقہی مسائل

جواب:

بصورتِ مسئلہ اگر آپ کے والد نے مذکورہ رقم بینک کے نفع و نقصان شراکتی کھاتے (PROFIT AND LOSS SHARING ACCOUNT) یا کسی بھی غیرسودی کھاتے میں جمع کروائی ہے اور انہیں ملنے والا اضافہ نفع و نقصان کی شراکت کے ساتھ ملتا ہے تو وہ سود نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر مذکورہ رقم سودی کھاتے میں رکھوائی گئی ہے جس پے طے شدہ شرح کے ساتھ اضافی رقم ملتی ہے تو یہ سود اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اس اضافی رقم کی حلت و حرمت کا فیصلہ کھاتے (ACCOUNT) کی قسم سے ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

✍️ مفتی تعارف

یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔