جواب:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ط
اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے۔
الطلاق، 65: 4
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
قال أبو حنيفة بل تعتد بوضعه ولو کان من زنا لعموم الآية.
امام ابو حنیفہ رحمہ اﷲ نے فرمایا: بلکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ اگرچہ حمل زنا سے ہو کیونکہ آیت مبارکہ عام ہے۔
الشوکاني، نيل الأوطار، 7: 89، بيروت: دار الجيل
عورت کو حمل چاہے نکاح سے ٹھہرے یا زنا سے، دورانِ حمل اس کا نکاح صرف اسی شخص سے نکاح منعقد ہوگا جس کے ساتھ مباشرت کی وجہ سے حمل ٹھہرا ہے۔ وضع حمل تک کسی اور مرد سے اس کا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ اس لیے زید کے ساتھ جو نکاح ہوا وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ بقول آپ کے صفائی کروا کر حمل زائل کر دیا گیا ہے اور رحم خالی ہو گیا ہے، اب اگر زید اور لڑکی رضامند ہوں تو دوبارہ نکاح کر کے بطور میاں بیوی رہ سکتے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔