جواب:
جب طلاق کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کیا جائے تو اسے ’طلاقِ مشروط‘ کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ:
و اذا اضافه الیٰ شرط وقع عقيب الشرط.
جب شرط پائی جائے گی تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاویٰ الهنديه،1: 420، دارالفکر
امام مرغینانی فرماتے ہیں:
و ألفاظ الشرط إن و إذا و إذا ما وکل و کلما ومتی و متی ما ففی هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت.
"جب" اور "اگر" کے الفاظ کے ذریعے طلاق کو مشروط کیا گیا تھا تو شرط پائی جانے سے طلاق واقع ہو جائے گی۔
مرغيناني، بداية المبتدي، 1: 74، القاهرة، مكتبة ومطعبة محمد علي صبح
اس لیے شوہر جب طلاق کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کرے تو شرط پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ مسئلہ مسؤلہ میں آپ نے بتایا کہ شوہر نے دو شرائط لگائی ہیں:
ان میں سے دوسری شرط تو واضح ہے کہ اگر بیوی نے کسی غیرمرد سے جسمانی تعلق قائم کیا تو ایک طلاق واقع ہو جائے گی، تاہم پہلی شرط مبہم ہے۔ اس ابہام کی وضاحت ضروری ہے کہ شوہر نے ’ملنے‘ سے کیا مراد لیا؟ کیا ملنے سے مراد سلام کرنا، خیریت دریافت کرنا یا حال و احوال پوچھنا ہے؟ یا اس سے مراد دوستی اور بات چیت ہے؟ شوہر نے شرط عائد کرتے ہوئے ان میں سے جو بھی معنیٰ و مراد لیا تھا اس کے پائے جانے پر طلاق واقع ہو جائے گی۔
لہٰذا جب بھی کوئی شرط پائی جائے گی تو ایک طلاق واقع ہو جائے گی۔ بصورتِ مسئلہ اگر بیوی نے دونوں کام کر دیے ہیں تو دو طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔ دورانِ عدت باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے یا عدت کے بعد وہ دوبارہ نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ اس صورت میں شوہر کے پاس طلاق کا ایک حق باقی رہ جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔