جواب:
شریعتِ مطاہرہ نے ترکہ میں ورثاء کے مقررہ حصے بیان کر دیے ہیں، کوئی انسان ان مقررہ حصوں میں اپنی مرضی سے کمی پیش نہیں کرسکتا۔ تاہم اگر کوئی وارث بلا جبر و اکراہ اپنے حصے سے دستبردار ہونا چاہے تو اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسی طرح اگر تمام ورثاء باہم مشورے سے برضا و رغبت کسی بہن بھائی کو اس کے حصے سے زیادہ دینا چاہیں تو یہ بھی جائز ہے۔ اگر ورثاء میں سے کوئی وارث زیادہ غریب ہے تو قریبی رشتہ داروں کا فرض بنتا ہے کہ اس کے حصے سے زیادہ اسے دیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُوْلُواْ الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُواْ لَهُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفًا.
اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو۔
النساء، 4: 8
اس لیے ورثاء کسی ضرورت مند کے لیے اپنے حصے سے مکمل یا جزوی طور پر دستبردار ہوسکتے ہیں۔ بصورت مسئلہ بھائی اپنی رضامندی اور خوشی سے اپنے حصے کم کر کے بہنوں کو دے سکتے ہیں، شرعاً اس کی کوئی ممانعت نہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔