جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًاo
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو اور صحیح اور سیدھی بات کہا کرو۔
الاحزاب، 33: 70
اور حدیث مبارکہ میں بھی صاحب ایمان کو اچھی بات کہنے کی ترغیب دی گئی ہے یا پھر خاموش رہنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْیَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَـلَا يُؤْذِ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے اور جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔
مذکورہ بالا نصوص کی رو سے اہلِ ایمان کے لیے اچھی اور سیدھی بات کہنے میں بہتری ہے۔ مسجد کا لاؤڈسپیکر چیک کرنے کے لیے مقدس کلمات دہرانے سے بہتر کیا ہوسکتا ہے؟ ہمارے نزدیک ایسا کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ کارِ ثواب ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔