جواب:
کوئی شخص جب زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے نصاب بنائے گا تو وہ اپنے پاس موجود سونا، چاندی، نقدی اور مالِ تجارت کے ساتھ اُس مال کو بھی نصاب میں گنتی کرے گا جو اس نے لوگوں کو دیا ہو اور اُس کی واپسی کا امکان ہو۔ اِن تمام اموال کو شامل کر کے نصاب بنانے کے بعد اگر اس نے کسی سے قرض لیا ہوا ہے تو اُسے نصاب میں سے منفی کرے گا۔ اِس کے بعد جو کچھ بچ جائے اگر وہ شرعی نصاب بن رہا ہو تو اِس پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کیجائے گی۔
اس لیے کسی کو قرض یا سرمایہ کاری کے لیے دیئے ہوئے ایک لاکھ پر بھی قرض خواہ (قرض دینے والا، اُدھار دینے والا) زکوٰۃ ادا کرے گا۔ زکوٰۃ کی فرضیت کی شرائط جاننے کے لیے ملاحظہ کیجیے:
زکوٰۃ فرض ہونے کی شرائط کیا ہیں؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔