جواب:
آپ اگر باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں تو وہیں موجود امام کی اقتداء کی نیت کریں۔ یہ درست نہیں کہ اقتداء پیش امام کی کریں اور اقتداء کی نیت کسی اور کی کرلیں۔ ایسا کرنے کا مطلب ہے کہ جس پیش امام کی آپ اقتداء کر رہے ہیں اسے امام تسلیم نہیں کرتے اور نماز بھی اسی کے پیچھے ادا کر رہے ہیں‘ اس طرح تو آپ کی نماز سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ باجماعت نماز اور امامت اسلام کا شعار ہے، اس کی اہمیت کے پیشِ نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
صَلُّوا ﺧَﻟْفَ ﮐُلﱢ ﺑَرﱟ وَ ﻓَﺎﺟِرٍ.
ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھ لو۔
دار قطنی، بحواله هدايه، 1 : 84
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم إِذَا کَانُوا ثَـلَاثَةً فَلْيَوُمَّهُمْ أَحَدُهُمْ وَأَحَقُّهُمْ. بِالْإِمَامَةِ أَقْرَوُهُمْ
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تین نمازی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرے اور امام بننے کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جسے قرآن کا زیادہ علم ہو۔‘‘
اس لیے اسلام کے اس شعار کا مذاق نہ بنائیں‘ جس کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے ہیں اسی کی امامت کی نیت کریں۔ ورنہ باجماعت نماز کی فضیلت سے محروم ہو گے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔