جواب:
اگر کوئی بینک یا ادارہ اپنے کھاتہ دار (investor) کو مقررہ مدت میں متعین (fixed) اضافہ دے تو یہ صریحاً سود ہے جو کسی طور بھی جائز نہیں ہے۔ اس کو نام کوئی بھی دے لیا جائے، نام بدلنے سے حرام‘ حلال نہیں بن جاتا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ اگر کھاتہ دار (investor) بینک یا کسی ادارے میں اپنی رقوم نفع و نقصان کی بنیاد پر جمع کروائیں اور ان کو طے شدہ نسبت (percentage) کے ساتھ زائد ملے تو یہ جائز ہے۔ اس صورت میں بینک کو آمدنی زیادہ ہونے پر کھاتے داروں کو بھی زیادہ حصہ ملے گا اور نقصان ہونے پر کھاتے داروں کا سرمایہ اور بینک کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ نفع و نقصان میں ادارہ اور کھاتے دار دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اس طرح کسی ایک فریق کو نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ موضوع کی وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے:
کیا حکومتی اداروں میں سرمایہ کاری پر ملنے والا منافع کفالت ہے؟
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔