جواب:
اگر یہ بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ آپ کو بیماری کی وجہ سے شدید غصہ آتا ہے جس میں آپ اپنے حواس اور ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں، تب بھی ہمارے سامنے اصل سوال یہ ہے کہ طلاق آپ نے کس کیفیت میں دی ہے؟ اگر بیوی کو فون کرتے وقت آپ جانتے تھے کہ آپ اسے طلاق دینے کے لیے فون کر رہے ہیں‘ آپ کو معلوم تھا کہ طلاق دینے کا مطلب اور نتیجہ کیا ہوگا اور آپ کو یہ بھی یاد ہے کہ آپ نے بیوی سے کیا بات کی اور اسے کن الفاظ میں کتنی بار طلاق دی ہے تو طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اگرچہ یکبارگی تین طلاق اکٹھی دینا ناجائز ہے‘ مگر یہ واقع ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ نے فون‘ طلاق دینے کے لیے نہیں کیا تھا، فون پر بات کرتے ہوئے اچانک لڑائی شروع ہوئی اور آپ لڑائی میں اپنا آپ کھو بیٹھے، حواس قائم نہ رہے اور آپ نے جو منہ میں آیا بول دیا‘ بعد میں کسی نے بتایا کہ تم نے فون پر طلاق بھی دے دی ہے۔ تب احساس ہوا کہ غلطی ہوگئی‘ اس کیفیت میں آپ کے کہے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور اس میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
ہم نے دونوں صورتیں آپ کے سامنے بیان کر دی ہیں، یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ طلاق دیتے وقت آپ کی کیفیت کیا تھی۔ اسی کے مطابق طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگے گا۔ مسئلہ چونکہ حرام و حلال کا ہے اس لیے خدا کو حاضر ناظر جان کر آپ خود دیکھیں کہ طلاق دیتے ہوئے آپ کس کیفیت میں تھے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔