جواب:
شرعی طور پر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَانكِحُواْ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ.
’ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)‘
(النِّسَآء، 4: 3)
یہ آیت کریمہ مطلق ہے، اس میں دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کے لیے کسی بیوی کی اجازت کی کوئی قید نہیں ہے، تاہم اگر بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرسکنے کا اندیشہ ہو تو ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں ہے۔
اگرچہ شرعی طور پر دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا لازم نہیں ہے‘ تاہم پاکستانی قوانین ’مسلم فیملی لاء آرڈیننس مجریہ 1961‘ کے تحت یہ قانونی تقاضا ہے۔ ’مسلم فیملی لاء‘ کے مطابق پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی قانوناً جرم ہے جس کی سزا 6 ماہ قید اور 2 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے مشاورت و اجازت لی جائے تاکہ قانونی تقاضا بھی پورا ہو جائے اور مستقبل میں کسی قسم کی بدمزگی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔