جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی اﷲ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)۔
البقره، 2: 280
اس آیت مبارکہ میں تنگدست مقروض کو مہلت دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور قرض معاف کر دینے کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔ مقروض مصارفِ زکوٰۃ میں شامل ہے اس لیے اسے زکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے۔ جس صورت کے متعلق آپ نے دریافت کیا ہے اس کا درست طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر مقروض غریب ہے جو قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو قرض خواہ زکوٰۃ کی مد سے دیے ہوئے قرض کی رقم اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ لیکن مقروض کی عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے اس کو یہ بتانا ضروری نہیں کہ میں نے اپنی زکوٰۃ سے تمہارا قرض معاف کیا۔ بس اس سے مطالبہ نہ کرے‘ اگر موقع ملے تو بتا دے کہ میں نے تمہیں قرض معاف کر دیا ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔