جواب:
اگر آپ کے دادا کی وفات دادی کی وفات سے پہلے ہو گئی تھی تو دادی کی تمام وراثت اولاد میں تقسیم ہوگی۔ تقسیم کا اصول وہی ہے جو قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النساء، 4: 11
اگر کوئی بیٹا ماں سے پہلے فوت ہو گیا ہے تو اس کی اولاد دادی کے ترکہ میں حصہ دار نہیں ہے، اگر بعد میں فوت ہوا ہے تو ماں کی وراثت میں اس کا حصہ ہے جو اب اس کی اولاد کو مل جائے گا۔
اگر آپ کی دادی کی وفات کے وقت تین بیٹے اور تین بیٹیاں زندہ تھے تو دادی کے ترکہ کو کل نو (9) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا‘ ہر لڑکے کو دو اور ہر لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔ لیکن اگر دادی کی وفات کے وقت ان کے ورثاء دو بیٹے اور تین بیٹیاں موجود تھیں تو دادی کے کل ترکہ کو سات حصوں میں تقسیم کیا جائے گا‘ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔