جواب:
کسی شخص کی وفات کے وقت جو رشتہ دار موجود ہوں وہی اس کے ترکہ کے وارث بنتے ہیں۔ پہلے فوت ہو جانے والا/ والی بعد میں فوت ہونے والے کا وارث نہیں بن سکتا۔ اس کے والدِ مرحوم کی جو زوجہ ان زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھی وہ آپ کے والد کے ترکہ میں حصہ دار نہیں ہے۔ ان کی جو زوجہ وصال کے وقت موجود تھی اسے کل قابلِ تقسیم ترکہ سے آٹھواں حصہ (1/8) ملے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ.
پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد۔
النساء، 4: 12
اس کے بعد اگر آپ دو ہی بھائی ہیں تو باقی سارا مال آپ دونوں میں برابر تقسیم ہو جائے گا۔ آپ کے والد کی زندگی میں فوت ہونے والی بیوی کا ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔