جواب:
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلاَ تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لَّتَعْتَدُواْ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلاَ تَتَّخِذُواْ آيَاتِ اللّهِ هُزُوًا.
اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو، اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔
البقره، 2: 231
اسلام کا مقصود خاندانی نظام کا قیام ہے جس کے بنیاد رشتہ ازدواج ہے۔ درج بالا آیت کے سیاق و سباق میں طلاق کا مضمون چل رہا ہے، جس میں نبھا نہ ہوسکنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو اچھے انداز میں علیحدگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام نے میاں بیوی میں سے کسی کو بھی تکلیف پہنچانے سے منع کیا ہے اور اس جرم کو اپنی جان پر ظلم اور اللہ کے احکام کا مذاق اڑانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس لیے عورت حاملہ ہو یا غیرحاملہ؛ ہر دو صورت میں اس پر تشدد ممنوع ہے۔ یہ انسانی اقدار، مذہبی تعلیم اور رشتہ ازدواج کے تقدس کے خلاف ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔