جواب:
آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
دورِ حاضر میں سونے، مالِ تجارت اور نقدی کا نصاب ساڑھے سات تولے سونے کی بازاری قیمت کے اعتبار سے شمار کیا جائے گا۔ اگر کسی کے پاس صرف چاندی ہے تو پھر ساڑھے باون تولے چاندی کے اعتبار سے نصابِ زکوٰۃ مقرر کیا جائے گا۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ کیجیے: نقد رقم پر زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے نصابِ شرعی سونے کو شمار کیا جائے یا چاندی کو؟
وجوبِ زکوٰۃ کے لیے مکمل سال صاحبِ نصاب رہنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص سال کا کچھ حصہ صاحبِ نصاب رہنے کے بعد نصاب سے کم مال کا مالک ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔ جیسے اگست 2017 میں صاحبِ نصاب ہوئے اور پھر دس ماہ نصاب سے کم مال کے مالک رہنے کے بعد اگست 2018 میں دوبارہ صاحبِ نصاب ہو گئے تو آپ کا سال اگست 2018 سے شمار ہوگا، پچھلے سال کی آپ پر زکوٰۃ نہیں ہے (نیز زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قمری کلینڈر کے حساب سے سال شمار کیا جائے گا)۔ قربانی کے وجوب کے لیے بھی زکوٰۃ کا نصاب ہی معیار ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ زکوٰۃ تب واجب ہوتی ہے اگر انسان پورا سال صاحبِ نصاب رہے لیکن قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایامِ قربانی (دس ذی الحج سے بارہ ذی الحج کی مغرب تک) صاحبِ نصاب ہو جائے تو قربانی واجب ہو جاتی ہے، اس کے لیے سال گزرنا ضروری نہیں ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔