جواب:
اگر مکان شوہر کے نام تھا تو شوہر کے وصال کے بعد اُس کے ترکہ کے طور پر مکان میں سے آٹھواں حصہ بیوہ کو ملنا تھا اور بقیہ کے پانچ برابر حصے کر کے دو حصے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو ملنا تھا۔ جبکہ صورتِ مسئلہ میں بیوہ نے مکمل گھر اپنے نام کر کے اور وراثت کی شرعی تقسیم سے انکار کر کے اپنے سر گناہ لیا جس کے لیے وہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہ ہے۔
اب اگر مکان مرحومہ بیوہ کے نام ہی ہے تو اُس کی وفات کے بعد اس کے ورثاء میں تقسیم شرعی اصولوں کے مطابق ہوگی۔ یعنی بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے۔
النساء، 4: 11
یہاں تک وصیت کا تعلق ہے تو حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے کہ وارث کے حق میں کوئی وصیت قابلِ قبول نہیں۔حضرت شرحبیل بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِى حَقٍّ حَقَّهُ فَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ.
ﷲ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیا ہے۔ لہٰذا وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔
اس لیے والدہ کی بیٹے کے حق میں کی گئی وصیت ثابت ہی نہیں ہوتی اور نا وہ شرعی طور پر قابلِ قبول ہے۔ اس پر عمل کرنا بھی خلاف شرع ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔