گواہوں کے بیانات میں تضاد ہونے پر گواہی کی کیا حیثیت ہو گی؟


سوال نمبر:5796
اگر گواہوں کے بیانات میں تضاد ہو تو احناف کے ہاں اُن کی گواہی کی کیا حیثیت ہو گی؟

  • سائل: کاشف اقبالمقام: لاہور
  • تاریخ اشاعت: 20 جولائی 2020ء

زمرہ: شہادت (گواہی)

جواب:

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کے نزدیک اگر گواہوں کے بیانات کے الفاظ مختلف ہوں لیکن معنیٰ ایک ہی ہو تو وہ گواہی قبول کر لی جاتی ہے جبکہ امام حنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق الفاظ اور معنی دونوں ایک جیسے ہوں تو گواہی قابل قبول ہوتی ہے ورنہ نہیں ، جیسا کہ فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

يُعْتَبَرُ اتِّفَاقُ الشَّاهِدَيْنِ لَفْظًا وَمَعْنًى عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَقَالَا: الِاتِّفَاقُ فِي الْمَعْنَى هُوَ الْمُعْتَبَرُ لَا غَيْرُ.

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک گواہوں کا لفظاً ومعناً اتفاق معتبر ہے، جبکہ صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک صرف معناً اتفاق کافی ہے۔

الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوى الهندية، 3: 503، بيروت: دار الفكر

لہٰذا گواہوں کے بیانات میں تضاد کی صورت میں اُن کی گواہی قابل قبول نہ ہو گی۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

✍️ مفتی تعارف

یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔