جواب:
رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ عالی شان ’خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم‘ سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے اور صحابہ و تابعین کے ادوار میں نیکی کا غلبہ تھا۔ لوگ مجموعی طور پر سادہ اور نیکی پسند تھے۔ خیر و بھلائی کا رجحان غالب تھا۔ اس سے قطعاً مراد یہ نہیں ہے کہ اُن زمانوں میں گناہ سرے سے سرزد نہیں ہوتے تھے یا برائی کا تصور ہی نہیں تھا۔ جرائم اور گناہ بھی ہوتے تھے اور بدی بھی تھی مگر گناہ و بدی مغلوب تھی، اس کا غلبہ نہ تھا۔ پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا تو نیکی اور سادگی کے یہ جذبات مغلوب ہوتے گئے اور ان کی جگہ بدی، ظلم، جھوٹ اور منافقت وغیرہ جیسے قبیحہ جذبات معاشرے پر غالب آ گئے۔ آج کے دور میں بھی اگر بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو گناہ کا غلبہ ہے، گناہ کرنا آسان اور نیکی کرنا دشوار ہے۔ گناہ کا ارادہ کرتے ہی اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے ہزار رستے کھل جاتے ہیں جبکہ نیکی کی راہ میں بیسیوں رکاوٹیں آتی ہیں۔
علاوہ ازیں سائل نے جن تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ واقعات بلاشبہ رونما ہوئے ہیں۔ یہ معلوم تاریخ کے واقعات ہیں اور اِن سے انکار و فرار ممکن نہیں ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ الکریم حق پر تھے اور فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق حق علیؑ کے ساتھ تھا اور علیؑ حق کے ساتھ تھے۔ اس کے سوا جو کچھ تھا وہ افسوس ناک تھا جس نے مسلمانوں میں فتنہ و منافرت کی ایسی آگ جلائی جو بجھائے نہیں بجھ رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ ان واقعات کا سبب بدنیتی ہو، ممکن ہے اِن واقعات کے کرداروں کا اصل مطمع نظر کچھ اور ہو جبکہ اس کے نتائج مختلف وارد ہوئے ہوں۔ جو بھی مذکورہ واقعات کے تمام کردار خدا کی عدالت میں پہنچ چکے ہیں، ہم ان کے پیچھے پہنچنے والے ہیں، اس عدالت سے جو بھی فیصلہ ہوگا اس میں کسی سے ظلم و زیادتی نہیں ہوگی، وہاں دیکھیں گے کی کس نے کیا کیا اور اس کی کیا سزا پائی۔ ان سب افسوسناک واقعات کے باوجود مجموعی طور پر معاشرے میں بدی غالب نہیں تھی، بلکہ نیکی کا غلبہ تھا۔ اکثریت کے سینے کدورت، شقاوت اور سیاسی چلاکیوں سے خالی تھے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ فرمان اپنی جگہ درست مفہوم میں بیٹھتا ہے، اس میں تشکیک بلاوجہ ہے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔