جواب:
ملازمین کی تنخواہ کا تقرر کام میں مہارت، اوقاتِ کار اور اہلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے، مقرر شدہ تنخواہ اور اس میں اضافہ وغیرہ کی شرائط آجر (کمپنی) اور اجیر (ملازم) پہلے طے کرتے ہیں۔ اگر آجر ایسے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملازمین کو اجرت نہیں دیتا یا اُس میں طے شدہ اضافہ نہیں کرتا تو وہ اجیر پر ظلم کر رہا ہے جس کیلئے وہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں جوابدہ ہے۔ تنخواہ ملازمین کے کام کی اجرت ہوتی ہے اور زکوٰۃ بطور اجرت دینا جائز نہیں۔ زکوٰۃ کی رقم بطور اجرت دینے سے زکوٰۃ کا فریضہ ادا نہیں ہوگا، بلکہ صاحبِ استطاعت پر ہنوز واجب الاداء رہے گا۔
مستحقِ زکوٰۃ ملازمین کی مالی مدد کی نیت سے انہیں زکوٰۃ کی رقم دینے میں حرج نہیں ہے، لیکن ایسی صورت میں نیت صرف ادائیگیٔ زکوٰۃ کی ہونی چاہیے۔ اگر معاوضہ و اجرت کی نیت سے زکوٰۃ کی رقم دی یا اِس نیت سے دی کہ تنخواہ میں طے شدہ اضافہ نہیں کروں گا تو یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ اجرت کے طور پر صدقات و زکوٰۃ دینا صدقہ کے منافی ہے۔ قرآنِ مجید میں زکوٰۃ کے آٹھ (8) مصارف بیان ہوئے ہیں جن میں زکوٰۃ کو فقراء و مساکین اور ناداروں کا حق قرار دیا گیا ہے۔ ملازمین کی محنت کے عوض کمپنی اپنے منافع سے ملازمین کی اجرت دیتی ہے۔ اگر کمپنی کا مالک ملازمین کو زکوٰۃ کی مَد سے دینا چاہتا ہے شرط یہی ہے کہ معاوضہ و اجرت کے طور پر نہ ہو اور نہ ہی زکوٰۃ کی وجہ سے اُن پر اضافی کام کا بوجھ ڈالا جائے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔