جواب:
بنک میں جو شخص بھی اکاونٹ رکھتا ہے تو حفاظت کی پیش نظر رکھتا ہے۔ آج کل آپ کو پتہ ہے کہ اگر کسی کو پتا چلے کہ فلاں گھر میں اتنے لاکھ روپے ہیں تو راتوں رات ڈاکہ اور لوٹ مار یہاں تک کہ صاحب مال کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ اور نہ علماء کرام یا کسی اور کے اکاونٹ سے حرام حلال ہو جاتا ہے ہرگز ایسا نہیں ہے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ اگر نمازی کو نماز کے دوران ایک درھم ضائع ہونے کا یقین ہو تو وہ نماز توڑ دے۔ جب ایک درھم کے لئیے نماز توڑنا جائز ہو تو لاکھوں روپے اگر نیت حفاظت بنک میں جمع کرادیئے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر بنک کے علاوہ کوئی متبادل نظام غیر سودی موجود ہو تو ضرور اس میں رکھنے چاہئیے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔