جواب:
تمام اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ مجدہ ہے خواہ نیکی ہو یا
برائی۔ سورہ النساء آیت نمبر 78 میں ارشاد فرمایا :
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّهِ
(النِّسَآء، 4 : 78)
آپ فرما دیں: (حقیقۃً) سب کچھ اللہ کی طرف سے (ہوتا) ہے۔
وہ طاقتور ذات ہے جو نیکی اور برائی کی طاقت دے بھی سکتا ہے اور سلب بھی کر سکتا ہے آپ کا سوال یہ ہے کہ برائی کی توفیق بھی دے اور سزا بھی؟
اصل بات یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے اور سب پر عمل کرنے والا انسان خود ہے اگر سوال ہی نہ ہو تو امتحان کس چیز کا یعنی کہ بُرائی بھی نہ ہو تو پھر سزا کس بات کی۔ اس لیے قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِo
(الْبَلَد، 90 : 10)
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئےo
انسان کو ہم نے دونوں راستے بتا دیے ہیں کہ یہ برائی کا راستہ ہے اور یہ نیکی کا راستہ اور انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ چاہے وہ اللہ کی اطاعت کرے یا شیطان کی۔ اگر وہ برائی کرتا ہے تو یہ اس کا اپنا فعل ہے اور اپنی مرضی سے کیا ہے اس لیے اس کو سزا دی جائے گی۔
اگر انسان نیکی کرتا ہے تو اس پر اسے جزا دی جاتی ہے۔ لہذا قیامت کے دن ان چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو انسان کے اختیار میں ہو۔ جو چیز انسان کے اختیار میں نہ ہو اس کے بارے میں کوئی سوال ہی نہیں مثلا بارش برسنا، اولاد دینا اور مریض کو شفا دینا وغیرہ۔ اسکے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا اس لیے کہ یہ انسان کی طاقت سے باہر ہے۔
یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ چاہے تو سب کچھ سلب کرسکتا ہے اور چاہے تو سب کچھ دے سکتا ہے یہ اس کی قدرت ہے لیکن قانون یہ ہے کہ انسان نیکی اور برائی کرنے پر مختار ہے چاہے وہ نیکی کرے یا برائی۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
یہ فتویٰ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے مستند علمائے کرام نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نگرانی میں جاری کیا ہے۔ تمام فتاویٰ کو قرآن و سنت کی روشنی میں تحقیق و تنقیح کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کی سچی اور قابلِ اعتماد رہنمائی عوام تک پہنچ سکے۔